1980 سے 1990 تک سعودی عرب آمد و رفت میرا معمول رہا۔ بے شمار مقامات، بے شمار شخصیات سے واسطہ پڑا جن میں امریکنوں اور اطالویوں سے لے کر سری لنکن تک شامل تھے اور سعودی تو تھے ہی ہمارےاسپانسرز، "آل شیخ” جو شیخ عبدالوہاب کی اولاد ہیں۔ نام تھا عبدالطیف صالح آل شیخ جن سے آج بھی رابطہ ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ میں قبائلی عربوں کو تھوڑا بہت جانتا ہوں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قبائلی عرب اول تو کھلتا نہیں، کھل جائے تو آنکھیں بند کرکے اپنا آپ، آپ کے سپرد کردیتا ہے۔ ہمارا معزز مہمان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، پیدائش اگست 85 تو یوں بھی”Virgo” ہے اور اس علم سے آشنا لوگ بتاتے ہیں کہ "Virgo” مرد Super ambitious، بے تحاشاہ ذہین، اپنی ترجیحات کے مطابق ماحول تراشنے والے، سخت گیر لوگ ہوتے ہیں جو خود کو بھی معاف نہیں کرتے۔ ان میں بدترین صورتحال کا سامنا کرنے کی صلاحیت ہی بدرجہ اتم موجود نہیں ہوتی بلکہ یہ اعلیٰ درجہ کے منصوبہ ساز اور نظم و ضبط کے عادی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت چارمنگ ہونے کے علاوہ تھوڑے Compulsive اورObssesive بھی ہوتے ہیں۔ کنگ سعود یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لے کر 22 سال کی عمر میں جہانبانی کی تربیت کا آغاز کرنے والا روایتی، قبائلی، قدامت پسند یہ شہزادہ دنیا میں اپنے اقتصادی، سماجی وژن اور لبرل پروگریسو سوچ کی علامت بن چکا جو مذہبی مشاورت کے لئے جواں سال مسلمان اسکالرز کو ترجیح دیتا ہے۔ وژن 2030 اس کی پہچان، ایک نیا سعودی عرب اس کا آدرش، پہلی گلوبل پہچان، کرپشن کے خلاف کریک ڈائون جو 100 ارب ڈالرز ریکوری کے بعد ختم بھی ہوچکا، کہ کام شروع کرنا ہی نہیں، اسے منطقی انجام تک پہنچانا اصل کام ہوتا ہے۔ یہاں یہ جاننا خاصا دلچسپ ہوگا کہ ہمارا کل قرضہ 95 ارب ڈالر ہے۔ ریفارمز کے اس شہزادہ نے عورت کو ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ بغیر کفیل کاروبار کی اجازت دی، یعنی تقریباً "آدھی آبادی” کو مین اسٹریم میں لانے کا جہاد شروع، سینما کی سمبالک اجازت کہ مومن اپنے عصر کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔
مکہ مدینہ پورے عالمِ اسلام کا روحانی مرکز تو ہے ہی پھر کیا عجب کہ کل سعودی عرب مسلمانوں کے لئے علم و ہنر یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی کا مرکز بھی بن جائے کہ ہمیں صدیوں سے اپنی یہ کھوئی ہوئی میراث یاد نہیں۔ پاکستان سے تقریباً تین گنا بڑا سعودی عرب، آبادی صرف 3 کروڑ 30 لاکھ، فی کس آمدنی 21000 ڈالر سالانہ (ہماری صرف1547 ڈالر فی کس سالانہ ہے) تو محمد بن سلمان جیسی قیادت کیسے کیسے کرشمے نہیں دکھا سکتی؟ میرا وجدان ہے کہ سعودی عرب سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں رول ماڈل بن جائے تو پورا عالم اسلام صدیوں پر محیط نیند سے بیدار ہوجائے گا۔ مہمان شہزادہ جتنی محبتیں اور مہربانیاں نچھاور کرگیا، اس کا سچا شکریہ ادا کرنے کا خوبصورت ترین طریقہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور عوام تن من دھن سے اپنے پائوں پر کھڑا ہو کر خود کفالت کا ہدف حاصل کریں اور اس کے لئے دن رات ایک کردیں۔ ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے ہوئے یوں کھڑے تھے دوست دریا کو بھی گزرنے کا رستہ نہیں ملاعالم اسلام کے پاس کس شے کی کمی ہے؟ قحط تھا تو قیادت کا۔ نجانے کیوں عمران خان اور شہزادہ محمد بن سلمان کو فریفتگی کے عالم میں شانہ بشانہ کھڑے دیکھ کر اک عجیب سا اطمینان کہاں سے نازل ہوا۔ وہ موروثی شہزادہ مملکت کا تیل پر انحصار ختم یا کم کرنا چاہتا ہے۔ یہ جمہوری شہزادہ قرضوں پر انحصار کا خاتمہ چاہتا ہے۔ دونوں کا سفر ذرا طویل اور منزل ذرا مشکل لیکن یہی تو غیر معمولی قیادتوں کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ جاپان کے پلے کچھ بھی نہیں لیکن وہ اپنی قسم کی سپر پاور ہے کیونکہ اس کے پاس محنتی، تعلیم یافتہ، ہنر مند، دیانتدار آدمی نہیں، "انسان” موجود ہیں۔ مسلمان کی تو ہلکی سی سمت تبدیل ہوجائے تو کیا نہیں ہوسکتا؟ تعداد کے ساتھ استعداد بھی ہم آہنگ ہوجائے تو…..”لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا”۔ میں بیچارہ تو اس سمجھوتے پر بھی خوش ہوں کہ امامت نہ سہی، کہولت سے ہی نکل آئیں۔ "دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے” کو تو چھوڑیں، ہمارے اپنے دشت و دریا ہی محفوظ ہوجائیں تو بڑی بات ہے۔
آج کل "تیغوں کے سائے” میں پل کر نہیں بہترین تعلیمی اداروں کی گود میں پل کر جوان ہونے سے ہی زندگی باوقار اور آسان ہوسکتی ہے "ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے” لیکن یہاں تو وہی نہیں جینے دیتے جو آبادی کی بڑھوتری کے حق میں فرسودہ، رٹی رٹائی، گھسی پٹی، بودی دلیلیں دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ عہد حاضر کی ترجیحات کا تعین کیسے کرنا ہے۔ اک عجیب سا خیال بھی آپ کے ساتھ شیئر کرلوں کہ جب میں ٹی وی پر عمران خان اور معزز مہمان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی کوریج دیکھ رہا تھا تو مسلسل یہ سوچ رہا تھا کہ یہ مناظر دیکھتے ہوئے شریف برادران کیا سوچ رہے ہوں گے؟ ایک معزز محنت کش دست کار کے طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے والے بھلے بیٹوں کو کبھی سعودی عرب میں قید غریب الوطن پاکستانی قیدیوں اور بوڑھے حاجیوں کا خیال کیوں نہیں آیا؟ آخر پر صرف اتنا کہوں گا کہ میں نے کتابوں سے مستعار لے کر محمد بن سلمان کی جو خصوصیات بیان کی ہیں، کیا یہی کچھ، کم و بیش یہی کچھ آپ کو عمران خان میں بھی دکھائی دیتا ہے کہ میں ہی کسی وہم کا شکار ہوں؟ قیدیوں کی رہائی پر اپیل کے لئے شکریہ، عمران خان قیدیوں کو رہا کرنے کے حکم پر شکریہ شہزادہ محمد بن سلمان ڈھلتے ہی شام آنکھ سے آنسو نکل پڑے یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہےقرضوں سے بھی رہائی کا وقت!گونگی سرگوشی…..تھینک یو جنرل باجوہ