ابراہیم ارمان لونی لق و دق صحرا میں اگنے والے حسین اور خوشبودار پھول کی مانند تھے۔ ایک ایسے علاقے میں پید ا ہوئے جہاں تعلیم حاصل کرنے کی سہولت تھی نہ رواج لیکن غریب والدین کی آرزو اور ارمان لونی کا شوق تھا کہ وہ لکھ پڑھ کر اپنے والدین کا ارمان پورا کرگئے۔ ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر مقابلے کا امتحان پاس کر کے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں بطور لیکچرر گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں پڑھانے لگے۔ بعدازاں ان کا تبادلہ قلعہ سیف اللہ کالج میں ہوگیا اور زندگی کی آخری سانس تک اپنے اہل خانہ سمیت یہاں مقیم رہ کر بلوچستان کے جوانوں کے ہاتھوں سے بندوق اور کدال لے کر کتاب تھمانے میں مگن رہے۔ انہیں صحرا میں اگنے والے پھول سے اس لئے تشبیہ دے رہا ہوں کہ پختون قوم پرست ہو کر بھی وہ فرسودہ رسموں کے اسیر نہیں رہے۔ نہ صرف اپنی بہن وڑانگہ لونی کو پڑھایا بلکہ انہیں سیاست میں حصہ لینے کی بھی اجازت دی۔ شاید یہ پختونوں کی صفوں میں واحد ایسے روشن خیال بھائی تھے کہ جو اپنی بہن کو جلسے میں لے جاتے پھر خود سامعین میں بیٹھ جاتے اور بہن کو اسٹیج پر تقریر کے لئے چھوڑ آتے۔ وہ شاعرانہ طبیعت کے مالک ضرور تھے لیکن دہشت گرد یا ریاست کے باغی ہر گز نہ تھے۔ وحشی صفت رائو انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود اور ان کے ساتھیوں کے بہیمانہ قتل کے بعد دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ابراہیم ارمان لونی بھی میدان میں نکلے۔ اپنی بہن وڑانگہ لونی کے ساتھ جلسوں میں شریک ہو کر لاپتہ افراد کی بازیابی کی التجائیں، نقیب اللہ محسود جیسے بے گناہوں کے قاتلوں کے لئے سز ا کا مطالبہ کرتے اور پھر پڑھانے چلے جاتے۔
سوشل میڈیا پر وہ اور ان کی بہن متحرک ضرور تھے اور اپنی قوم کے حقوق کے لئے پوری قوت کے ساتھ آواز اٹھاتے رہتے لیکن کبھی رائو انوار کی طرح قانون ہاتھ میں لیا، نہ وزیراعظم عمران خان کی طرح کبھی سول نافرمانی کا اعلان کیا۔ اگر نقیب اللہ محسود کے قاتل کو سزا مل جاتی اور پختون سرزمین سے لاٹھی گولی کی سرکار ختم کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جاتیں تو ارمان لونی جیسے نوجوان اپنے کاموں کی طرف لوٹ جاتے لیکن افسوس کہ ریاست ان کو ڈیل کرنے کے معاملے میں بھی اسی طرح غلطیاں دہرارہی ہے جس طرح کہ طالبان کے سلسلے میں دہرائی گئی تھیں۔ ارمان لونی جیسے نوجوانوں کے جذبات کچھ ٹھنڈے کیا پڑتے کہ کوئی اور حرکت ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے جذبات پھر بھڑک اٹھتے ہیں۔ نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل سے جنم لینے والا بخار کسی حد تک ٹوٹ رہا تھا کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک ایس پی کے پراسرار اغوا اور قتل کا واقعہ رونما ہوا۔ پی ٹی آئی کے وزیروں، مشیروں نے بہت بڑھکیں ماری تھیں لیکن آج دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باجود نام نہاد جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی سامنے نہیں آ سکی۔ اگر نقیب اللہ اور ایس پی وغیرہ کے معاملات کو منطقی انجام تک پہنچایا جاتا تو ارمان لونی جیسے لوگ اپنے کام چھوڑ کر دھرنے نہ دے رہے ہوتے۔
ابھی لوگ ایس پی والے واقعہ کو بھلا نہ پائے تھے کہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں ارمان لونی اپنے پختون بھائیوں کے لئے امن اور انصاف کے ارمان کے ساتھ قتل کر دیئے گئے۔ ارمان لونی کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے علاقے لورالائی میں پولیس سینٹر پر دہشت گردوں کے حملے کے واقعے کے خلاف دھرنا دے رکھا تھا۔ وہ ریاست کی غلط پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ ضرور بنا رہے تھے لیکن بذات خود یہ دھرنا بھی ریاستی اداروں کے حق میں تھا کیونکہ لورالائی کے واقعہ میں پولیس کے نوجوان شہید ہوئے تھے لیکن اس "جرم” کی بنیاد پر گرفتار کرنے کی کوشش میں انہیں قتل کردیا گیا۔ ان کی میت کو گاڑی میں ڈال کر جب گھر لے جایا جارہا تھا تو ان کی والدہ اور بہن وڑانگہ لونی ان کے ساتھ تھیں۔ اس دوران ان کی والدہ کے احساسات کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر اور ماں کے خیالات سن کر سنگدل سے سنگدل شخص بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتا۔ ان کی بہن وڑانگہ اس لحاظ سے خراج تحسین کی مستحق ہے کہ اپنے بھائی کی لاش کے ساتھ بیٹھ کر بھی وہ عزم و ہمت کی مجسم تصویر بنی ہوئی تھی۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اس ماں اور بہن کو دیکھ کر ہر پختون نوجوان کے خیالات اور جذبات ارمان لونی جیسے ہوجاتے ہیں۔ اگر ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنما قبائلی علاقوں کے مظلوم عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہمت کرتے یا پھر ان کو ایسا کرنے کی اجازت دی جاتی تو ارمان لونی جیسے نوجوان میدان عمل میں نہ آتے۔ اسی طرح اگر میڈیا کو ان کے حالات سے پاکستانیوں کو آگاہ کرنے کی اجازت ہوتی تو یہ غبار جمع ہوتا اور نہ یہ انتہا پسندانہ اور غیر متوازن نعرے جنم لیتے۔ آج وہ دیکھتے ہیں کہ نہ میدان سیاست میں ان کا ذکر ہوتا ہے اور نہ میدان صحافت میں۔ ہم ان سے التجائیں کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس ملک کا برابر شہری سمجھیں لیکن جواب میں وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو پھر وہ میڈیا ان کے لاکھوں افراد کے جلسوں کو وہ کوریج کیوں نہیں دیتا جو سول نافرمانی کا اعلان کرنے والے لیڈر کے دھرنوں کو ہر روز ضرورت سے زیادہ دیا کرتا تھا۔
وہ کہتے ہیں اور بجا کہتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ماڈلنگ کرنے والے نقیب اللہ محسود کا معاملہ منطقی انجام کو پہنچتا ہے، نہ پولیس افسر کا اور نہ پروفیسر ارمان لونی کا۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں دونوں فریقوں کا مقدمہ اپنی بساط کے مطابق بیان کر کے اپنے اس خدشے کا اظہار واشگاف الفاظ میں کیا تھا کہ پاکستان کا پختون بیلٹ ایک بار پھر خونریزی کی طرف جاتا ہوا نظر آتا ہے۔ متنبہ کیا تھا کہ فریقین چارجڈ اور تیار بیٹھے ہیں۔ ارمان لونی کے جنازے میں شرکت کے لئے جانے والوں کو راستے میں ایک جگہ پر روکا گیا تھا۔ یہاں پر سیکورٹی فورسز کے ساتھ جو صورت حال جنم لی چکی تھی اس کی ویڈیو میں نے دیکھی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بڑا حادثہ ہوتے ہوتے بچ گیا۔ افسوس یہ ہے کہ اس وقت وفاق، پختونخوا اور بلوچستان میں جو حکومتیں قائم ہیں ان کو ان معاملات کی سمجھ ہے، ان کو حل کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی ان کا وہ مقام ہے کہ وہ درمیان میں آکر قضیے کا حل نکالیں۔ رہے وزیراعظم تو وہ اپنے بزدار کو بچانے اور کامیاب کرانے کی فکر میں مگن ہیں۔ تب ہی تو میں نے گزشتہ کالم میں اسفندیار ولی خان اور آفتاب شیرپائو جیسے لوگوں سے آگے بڑھ کر کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی لیکن افسوس کہ کوئی بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ ہمارا نہ ایک فریق پر اختیار ہے اور نہ دوسرے پر لیکن سچی بات یہ ہے کہ دونوں سے ہمدردری ہے۔ میں تو بس دونوں فریقوں سے دست بستہ درخواست کر سکتا ہوں کہ اللہ کا واسطہ، ایک دوسرے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ایک دوسرے کی مجبوریوں کا احساس کریں، ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں، ورنہ جو کچھ ہونے جارہا ہے اس کا کسی فریق کوکوئی فائدہ نہیں ہو گا۔