ولی عہد کے دورے کے بعد – سلیم صافی
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلق کی کئی جہتیں ہیں۔ اس کا مقابلہ اور موازنہ کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ تعلق سے نہیں کیا جا سکتا۔ کسی قسم کا سفارتی، معاشی اور تزویراتی تعلق نہ ہوتا تو بھی مکہ اور مدینہ کے وجہ سے یہ ملک پاکستانیوں کے لئے عزت و تکریم کا مرکز ہوتا لیکن یہاں تو برسوں پر محیط دوستی بھی ہے۔ ریاستی سطح پر سعودی عرب کا رویہ روز اول سے مشفق دوست والا رہا اور ہر مشکل وقت میں اس نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ کسی دوسرے پڑوسی یا علاقائی ملک میں اتنے پاکستانیوں کو روزگار نہیں ملا جتنا کہ سعودی عرب میں ملا ہوا ہے۔ زلزلے کا حادثہ ہو، سیلاب کی آفت ہو یا مہاجرین کا المیہ، سعودی عرب سب سے پہلے پاکستان کی مدد کو آیا اور سب سے زیادہ مدد کی۔ اکہتر کی جنگ میں ہم امریکی بیڑے اور چین کی طرف سے ہندوستان پر حملے کے انتظار میں بیٹھے تھے لیکن آخری وقت تک ساتھ دیا تو سعودی عرب نے دیا اور بنگلہ دیش کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جب تک پاکستان نے خود اسے تسلیم نہیں کیا۔ ایران، افغانستان یا کسی اور ملک نے کشمیر کے معاملے پر اگر کبھی انڈیا کا ساتھ نہیں دیا تو پاکستان کا بھی نہیں دیا لیکن سعودی عرب بڑی حد تک پاکستان کا ہمنوا رہا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ مہربانیاں سراسر یکطرفہ نہیں تھیں۔ پاکستانی فوج نے بھی ہر موقع پر سعودی عرب کا اسی طرح دفاع کیا جس طرح اپنے ملک کا کیا جاتا ہے۔ اسرائیل سے متعلق پاکستان کا دیرینہ بے لچک موقف، جس کی پاکستان نے ماضی میں بڑی قیمت ادا کی، بھی بنیادی طور پر سعودی عرب کی تقلید میں اپنایا گیا۔ یمن کے معاملے پر پاکستانی قیادت سعودی قیادت کی پالیسی کی پوری طرح حامی نہیں تھی اور سعودی قیادت کی توقعات کے مطابق نواز شریف نے جنگ میں براہ راست فریق بننے سے معذرت کرلی لیکن پھر بھی مجموعی طور پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا رہا۔ اتار چڑھائو آتا رہا لیکن مجموعی طور پر سعودی عرب نے شخصیات کی بجائے قوم کے ساتھ دوستی رکھی۔ بھٹو کے دور میں تعلقات میں جو گرمجوشی تھی وہ بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے جنرل ضیاء کے دور میں بھی برقرار رہی۔ نوازشریف کے دور میں مہربانیاں زیادہ رہیں تو ان کو اقتدار سے نکالنے والے جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی سعودی عرب اسی طرح دوست رہا۔ عمران احمد خان نیازی صاحب اقتدار میں آنے سے قبل نواز شریف کی دشمنی میں سعودی عرب کے بھی مخالف ہو گئے تھے اور پاکستان میں عرب دوستوں کے شکار تک پر اعتراض کرتے رہے لیکن جب اسی عمران خان کو پاکستان کا وزیراعظم بنایا گیا تو سعودی عرب نے ان کو بھی اسی طرح گلے لگایا جس طرح نواز شریف کو لگا رکھا تھا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد نہ صر ف پاک سعودی تعلقات میں عارضی سرد مہری ختم ہو گئی ہے بلکہ کچھ عرصہ سے اس میں غیر معمولی گرمجوشی نظر آرہی ہے۔ قرض سہی لیکن پہلے سعودی عرب نے پاکستان کو مالی بحران سے نکالنے کی خاطر خواہ مدد کی۔ اس نئی گرمجوشی کے لئے ساری اسٹرٹیجک بنیادیں جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی قیادت کے ساتھ مل کر استوار کیں لیکن اب ہر پاکستانی کو اس تعلق کی قدر کرنا چاہیے۔ یمن اور جمال خاشقجی جیسے معاملات پر اس وقت سعودی عرب خود بھی شدید دبائو میں ہے اور پاکستان جیسے ملکوں کی حمایت اسے پہلے سے زیادہ درکار ہے اور پاکستان بجا طور پر اس موقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس تناظر میں جب سعودی ولی عہد پاکستان آئے تو ان کا غیر معمولی اور غیر روایتی استقبال کیا گیا اور یقیناً ایسا ہی ہونا چاہئے تھا لیکن دوستی کو مزید مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے چند احتیاطوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔
پہلی احتیاط یہ کرنی چاہئے کہ کہیں ہم اس گیم پلان کا حصہ نہ بن جائیں جو امریکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے حق میں اور ایران کے خلاف شروع کر چکا ہے۔ اس وقت امریکہ اس میں کامیاب ہو گیا ہے کہ اس نے کم و بیش تمام عرب ممالک کی توپوں کا رخ اسرائیل سے موڑ کر ایران کی طرف کر دیا ہے اور خصوصاً ولی عہد محمد بن سلمان اس معاملے میں پوری قوت کے ساتھ امریکی بیانیے کے ہمنوا ہیں۔ یوں وہ پہلے عرب سربراہ حکومت ہیں جن سے اسرائیل نے بھی نیک توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ باخبر حلقے یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان پر سعودی عرب کی جو حالیہ مہربانی ہے اسے نہ صرف یہ کہ امریکی این او سی حاصل ہے بلکہ وہ ترغیب بھی دے رہا ہے۔ اس لئے یہ احتیاط کرنا چاہئے کہ کہیں ہم ایران کے خلاف یا اسرائیل کے حق میں نادانستہ استعمال نہ ہو جائیں۔ اگر نہیں بھی ہو رہے ہیں تو کہیں ایران تو یہ نہیں سمجھ رہا کہ ہم اس کے خلاف اتحاد کا حصہ بن رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اندرونی حالات کے تناظر میں ایران کو ہر سطح پر یقین دلانا چاہئے کہ پاک سعودی تعاون سے اس کو فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن ہم کبھی اس عمل کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے ایران کو نقصان ہو۔
عمران خان جو ماضی میں سعودی مخالف سمجھے جاتے تھے اور نواز حکومت کے سعودی عرب سے تعلقات پر ان کے اور ان کے ساتھیوں کے تنقیدی بیانات سے آج بھی ٹی وی چینلز کی لائبریریاں بھری پڑی ہیں لیکن اس کے باوجود جب وہ وزیراعظم بنائے گئے تو سعودی قیادت نے ان سے متعلق اسی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا جو وہ نوازشریف اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کرتے رہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ چین اور ترکی کی طرح سعودی عرب کا تعلق بھی کسی فرد یا پارٹی سے نہیں بلکہ پاکستانی ریاست سے ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران اسے ریاست سے اٹھا کر ذاتی تعلق بنانے لگ جاتے ہیں۔ ماضی میں یہ غلطی میاں نواز شریف نے بھی کی اور جنرل پرویز مشرف نے بھی۔ افسوس کہ اب اس معاملے میں عمران خان ان سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئے اور سعودی ولی عہد کی استقبالی تقریبات میں میاں شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان یا سراج الحق وغیرہ جیسے اپوزیشن کے رہنمائوں کو نہیں بلایا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ سعودی مہربانیاں ان کی ذات کی مرہون منت ہیں۔ یہ تاثر میاں نواز شریف اور پرویز مشرف نے بھی دینے کی کوشش کی لیکن آج وہ دونوں نہیں ہیں اور پھر بھی دونوں ممالک کے تعلقات کی وہی نوعیت ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور ایران دونوں پر واضح کر دینا چاہئے کہ وہ چین کی طرح پاکستان میں مختلف مذہبی یا سیاسی گروہوں کے ساتھ تعلق حکومت کے راستے سے رکھیں۔ یہ بہت افسوسناک امر تھا کہ ایک طرف حکومت نے ولی عہد کے استقبالی پروگراموں میں اپوزیشن کو نہیں بلایا اور دوسری طرف ملک میں بعض مذہبی گروپوں اور شخصیات نے ان کی حمایت اور مخالفت میں بینرز لگانے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی طوفان برپا کیا۔ ایران اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے بعض مذہبی گروپوں کے ذاتی تعلقات ہی فساد کی جڑ ہیں کیونکہ یہی تنظیمیں پھر ان کی پراکسی بن کر ایران اور سعودی عرب کی لڑائی کو پاکستان کے اندر لے آتی ہیں۔