بہت سارے لوگوں میں شکرگزاری کی خصوصیت نہیں پائی جاتی۔ ہارورڈ گریجویٹ اسکول آف ایجوکیشن کی 2014ء کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ ہر 5میں سے 4بچے دوسروں کا سوچنے کے بجائے ذاتی کامیابی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ تحقیق کے محققین نے اس کا نتیجہ کچھ اس طرح اخذ کیا تھا، ’زبانی کلامی باتوںاور حقیقت میں فرق ہوسکتا ہے۔ فرق سے مراد یہ ہے کہ اکثر والدین اور بڑے بچوں کو بتاتے ہیں کہ ان کی ترجیحاتXہیں، تاہم وہ اپنے عمل کے ذریعے بچوں کو Yکا پیغام دے رہے ہوتے ہیں‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے بچوں کو یہ بات بتاتے ضرور ہیں کہ دوسروں کا خیال رکھنا اور شکرگزاری کی عادت پیدا کرنا اچھی چیز ہے، تاہم وہ اپنے عمل سے اس کے برعکس مثال قائم کررہے ہوتے ہیں۔
بچوں میں ایسے رویے کس طرح اور اس کی ابتداء کہاں سے کی جائے؟ مثلاً گھر میں جب آپ کسی کو کوئی کام بولیں تو ’پلیز‘ کا لفظ استعمال کریں اور جب آپ کا وہ کام کردیا جائے تو ’تھینک یو یا شکریہ‘ کہیں۔ اسی طرح گھر میں اپنے بچوں کو ایسی سرگرمیوں میں شامل کریں، جن کے ذریعے شکرگزاری کا اظہار کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے۔
شکرگزاری سیکھانا
بچوں میں شکرگزاری کی عادت پیدا کرنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ اس کے لیے بچوں میں گہری ہم احساسیدوسروں کے جذبات کی قدر کرنے کی خصوصیات پیدا کرنا پڑیں گی۔ ہم احساسی ایک ایسی کیفیت ہے، جو چھوٹی عمر کے بچوں میں زندگی کے کم تجربے کے باعث پیدا ہونے میں وقت لیتی ہے۔ مثلاً اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ رات کے وقت جب فیملی کے تمام افراد کھانے کی میز پر اِکٹھے بیٹھتے ہیں تو ہر ایک سے یہ پوچھا جائے کہ آج کے دن ایسی کیا چیز ہوئی جس پر وہ شکرگزاری کا اظہار کرنا چاہیں گے۔ اس مشق کے بچوں پر طویل مدتی اثرات انتہائی حیران کن ہونگے۔
شکر گزار والدین بنیں
یہ بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے کہ ہم سب اپنے بچوں سے کس قدر پیار کرتے ہیں اور ان کے پیار ، ان کی مسکراہٹ اور ان کے گلے لگنے پر ہم انتہائی فخر اور محبت محسوس کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم بچوں کو بتائیں گے کہ وہ ہمارے لیے کیوں خاص ہیں تو صرف یہ ایک بات ان کے اعتماد کو کئی گُنا بڑھادے گی۔ اس سے بچوں کے ذہن میں یہ سوچ بھی پیدا ہوگی کہ شکر گزاری کا اظہار صرف مادی چیزوں جیسے نیا اسمارٹ فون اور فیشن ایبل سوٹ پر ہی نہیں کیا جاتا۔ ان پر زیادہ چیزوں کی بھرمار نہ کریں آپ نے وہ پُرانی کہاوت تو ضرور سُنی ہوگی”’ تمام چیزوں میں میانہ روی اختیار کریں‘‘۔ اور سب سے بڑھ کر ہمارا مذہب اسلام بھی ہمیں میانہ روی کہ ہی تلقین کرتا ہے بلاشبہ، ہم اپنے بچوں کو دنیا کی بہترین چیزیں دینا چاہتے ہیں اور ہم یہ تجویز نہیں دےرہے کہ انھیں صرف انتہائی ضروری چیزیں ہی دیں۔آپ اپنے بچون کو چیزیں دلائیں مگر انکو چیزوں کی ویلیو بھی ضرور بتائیں
تھینک یو‘ نوٹس
ہاتھ سے تحریرکردہ ’تھینک یو‘ نوٹس کا رجحان اب ختم ہوتا جارہا ہے، تاہم بچوں میں شکرگزاری پیدا کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہےکہ آپ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ سال کے اختتام پر اپنے ٹیچرز، اور گھر پر مدعو کرنے والے اپنے دوستوں کے والدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھیں ’تھینک یو‘ کا نوٹس پیش کریں۔ جب چھوٹی عمر میں ہی ان میں یہ عادت پروان چڑھے گی تو پھر تاحیات برقرار رہے گی۔ ’لینے والے سے دینے والا ہاتھ بہتر ہوتا ہے‘۔ دوسروں کی مدد کرکے انسان اچھا محسوس کرتا ہے۔ جب بچے اپنا وقت اور توانائی دوسروں کی مدد میں خرچ کرتے ہیں تو پھر ان میں اپنی صحت، گھر اور خاندان کا خیال رکھنے کا جذبہ بڑھ جاتا ہے۔
رویے میں نرمی اور عزت دِکھائیں
جب ہم اپنے بچوں کو سیکھائیں گے کہ دوسروں سے عزت اور وقار کے ساتھ پیش آئیں تو یہ بات آہستہ آہستہ ان کی شخصیت کا حصہ بن جائے گی۔ ایسے میں جب کبھی کوئی دوسرا ان کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آئے گا یا ان کی مدد کو آئے گا تو انھیں سامنے والے کی اچھائی کا بہتر احساس ہوگا۔ کچھ والدین صرف اپنے ’باس‘، مذہبی رہنما یا دیگر بڑی شخصیات کو عزت دینے پر زیادہ زور دیتے ہیں اور باقی لوگوں کو اس اعلیٰ سطح کی عزت دینا بھول جاتے ہیں۔ تاہم والدین کو اپنے بچوں کو تمام لوگوں کی مساوی عزت کرنے کا درس دینا چاہیے۔