میڈیا کے مطابق آئی ایم ایف نے تعمیراتی اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے کچھ ریلیف فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ مراعات/ ریلیف فوری طور پر دی جائیں گی یا مالی سال 2025-26 کے آئندہ بجٹ میں شامل کی جائیں گی۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان گزشتہ ہفتے جمعہ کے روز مذاکرات ختم ہوگئے تھے لیکن عملے کی سطح پر معاہدہ نہیں ہو سکا جو کہ ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کروانے کے لیے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کو اسلام آباد کی طرف سے باضابطہ درخواست پیش کرنے سے پہلے ضروری ہے۔
آئی ایم ایف نے نے MEFP کا مسودہ شیئر کیا ہے جس میں مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے سخت شرائط شامل ہیں۔
ایک جانب ایف بی آر کا ٹیکس وصولی ہدف کم کردیا گیا ہے جب کہ دوسری جانب اخراجات میں کٹوتی شامل کی گئی ہے تاکہ موجودہ مالی سال میں آئی ایم ایف کے عملے سے طے شدہ پرائمری سرپلس حاصل کیا جا سکے۔
پیٹرولیم مصنوعات پر فی لیٹر 70 روپے لیوی لگا کر زیادہ سے زیادہ محصولات حاصل کرنے اور اس رقم سے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی تجویز دی گئی تھی جو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک اور اختلافی نکتہ بن گئی۔
آئی ایم ایف نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے لگیں تو حکومت عوام پر بوجھ نہ ڈالنے کی صورت میں گردشی قرضے کا سامنا کیسے کرے گی؟
کئی ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ اس قسم کی کراس سبسڈی ماضی میں کامیاب نہیں ہو سکی اور وہ آئی ایم ایف کے ردعمل کا انتظار کر رہے ہیں۔
اسلام آباد نے توانائی کے شعبے پر بوجھ ڈالنے والے 2.4 کھرب روپے کے گردشی قرضے کو ختم کرنے کے لیے 6 سالہ منصوبہ پیش کیا۔
آئی ایم ایف کی منظوری سے قرض میں جکڑی حکومت کو مالیاتی ریلیف ملا ہے کیونکہ یہ نیا قرضہ عوامی قرضے میں ظاہر نہیں کیا جائے گا۔