ریونیو کا سب سے بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی اور سود پر جارہا ہے: وزیر خزانہ
وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے قومی اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح 0.29 فیصد رہی۔ پچھلا مالی سال بہت مشکل سال تھا، اقتصادی سروے کی اشاعت وزارت خزانہ کی ذمہ داری ہوتی ہے، 2017میں پاکستان کی معیشت دنیا کی 24ویں معیشت بن چکی تھی اور 2022میں پاکستان کی معیشت بدقسمتی سے دنیا کی 47ویں معیشت بن گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم جو ایریاز کور کریں گے ان میں زراعت، کیپٹل مارکیٹ، صحت، تعلیم اور مواصلات سب شامل ہیں، ہم نے فائیو ایز (ایکسپورٹ، ایکوئٹی، انرجی، امپاورمنٹ اور انوائرمنٹ) کو ترجیح دی ہے، حکومت کی ترجیح ہے کہ میکرو اکنامک ترقی کے ساتھ ساتھ چلیں۔
ان کا کہنا تھا تھری ایز کے بعد اب فائیو ایز پالیسی پر آئندہ کا روڈ میپ بنایا ہے، میکرو اکنامک استحکام کی بحالی کے انڈیکیٹرز اقتصادی سروے میں شامل ہیں، میکرو اکنامک استحکام کو بحال کرنا حکومت کا مقصد ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا جہاں 2017 میں ملک پہنچ چکا تھا وہیں دوبارہ لے جانا چاہتے ہیں، حکومت مجموعی گروتھ کے راستے پر چلنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب حکومت سنبھالی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا جا رہا تھا، ہم حکومت نہ سنبھالتے تو پتہ نہیں پاکستان کہاں کھڑا ہوتا، جب ذمہ داری سنبھالی تو ہماری فنانسنگ ذمہ داریاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں، معاشی استحکام کے لیے کوشش کریں گے۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ ریونیو وصولی کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے، پاکستان تحریک انصاف کے دور میں قرضوں اور واجبات میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا، قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کا خرچہ 7 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، ان معاملات نے ملک کو بڑا نقصان پہنچایا۔
قومی اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح 0.29 فیصد رہی، زراعت کے شعبے نے 1.55 فیصد شرح سے ترقی کی جبکہ صنعتی شعبے کی ترقی منفی 2.94 فیصد رہی، خدمات کی شرح نمو 0.86 فیصد رہی۔
رپورٹ کے مطابق سیلاب، عالمی کساد بازاری اور سخت اقتصادی فیصلے شرح نمو میں کمی کا باعث بنے، جولائی تا مئی 2023 اوسط افراط زر 29.2 فیصد رہا، مہنگائی کی بڑی وجہ عالمی مارکیٹ اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہے جبکہ سیلاب کی وجہ سے اہم فصلوں کا نقصان ہوا، مہنگائی کی وجہ سیاسی عدم استحکام اور روپے کی قدر میں کمی بھی ہے۔
اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق 10 ماہ میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4.6 فیصد رہا، مالیاتی خسارہ پچھلے سال کے مقابلے میں 4.9 فیصد تھا، رواں مالی سال پرائمری بیلنس 99 ارب روپے فاضل رہا، پچھلے سال اسی عرصے میں پرائمری بیلنس 890 ارب روپے خسارے میں رہا، 10 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 76فیصد کمی رہی۔
اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ جولائی تا مئی 2023 ایف بی آر کے ٹیکس محصولات میں 16.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، گزشتہ مالی سال کے 5348.2 ارب روپے کے مقابلے میں 6210ارب روپے رہے، ٹیکس پالیسیوں میں بہتری اور انتظامی اصلاحات محصولات بڑھانے میں معاون رہے۔
سروے کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3.3 ارب ڈالر پر آگیا، گزشتہ سال اسی عرصے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13.7ارب ڈالر تھا، جولائی تا مئی تجارتی خسارہ 40.4 فیصد کمی سے 25.8 ارب ڈالر رہا۔
جولائی تا مئی درآمدات میں 29.2 فیصد کمی ہوئی، جولائی تا مئی درآمدات 51.2 ارب ڈالر پر آگئیں، جولائی تا مئی برآمدات میں 12.1فیصد کمی ہوئی، جولائی تا مئی برآمدات 25.4 ارب ڈالر رہیں، 10 ماہ میں ترسیلات زر 13فیصد کمی کے ساتھ 22.7 ارب ڈالر رہیں۔
اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ جولائی تا اپریل براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں 23.2فیصد کمی ہوئی، براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 1170ملین ڈالر رہی۔
مینو فیکچرنگ کی شرح نمو منفی 3.91 فیصد رہی جو پچھلے سال 10.86فیصد تھی جبکہ تعمیرات کے شعبے کی شرح نمو منفی 5.53 فیصد رہی، تعمیرات کے شعبے کی شرح نمو پچھلے سال 1.90فیصد تھی۔
بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی سمیت انڈسٹری کے ذیلی شعبوں میں شرح نمو 6 فیصد رہی جبکہ ہول سیل اور ریٹیل تجارت کی شرح نمو منفی 4.46 فیصد رہی، ہول سیل اور ریٹیل تجارت پچھلے سال 10.3فیصد تھی، ٹرانسپورٹ اور اسٹوریج کے شعبے میں ترقی کی شرح 4.73فیصد رہی۔
اقتصادی سروے کے مطابق مجموعی سرمایہ کاری میں 10.2فیصد اضافہ ہوا، مجموعی سرمایہ کاری میں گزشتہ سال 29.1 فیصد اضافہ ہوا تھا جبکہ نجی سرمایہ کاری میں 6.18 فیصد اضافہ ہوا، نجی سرمایہ کاری میں گزشتہ سال 27.66 فیصد اضافہ ہوا تھا، حکومتی سرمایہ کاری میں 14.10فیصد اضافہ ہوا، حکومتی سرمایہ کاری میں گزشتہ سال 39.27فیصداضافہ ہوا تھا، قومی بچت میں 44.7 فیصد اضافہ ہواجو گزشتہ سال منفی 3.8فیصد تھی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بہت مشکل فیصلے کیے، ان مشکل فیصلوں کیلئے جرات کا مظاہرہ کیا، تاریخ میاں شہباز شریف کو یاد رکھے گی کہ انہوں نے سیاست پر ریاست بچانے کو ترجیح دی۔
انہوں ںے کہا کہ ہم نے اگلے مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف ساڑھے تین فیصد مقرر کیا گیا ہے، اس کیلئے زراعت پر فوکس کررہے ہیں ، صنعت کو جتنی سپورٹ دی جاسکتی ہے دیں گے، آئی ٹی کو سہولتیں دیں گے اور ریونیو موبلائزئشن پر فوکس کریں گے،2025ء تک گرین انرجی پر جانے کا ہدف ہے، اس سے انرجی کی دس سے پندرہ فیصد بچت ہوگی۔