یوٹیوب چینل پر بات کرتے ہوئے نازش جہانگیر نے کہا کہ آج بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ ہر رونے والی عورت سچی نہیں ہوتی، ہمیں صنفی امتیاز پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے سے بے راہ روی کو کم کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ہی ماں کا بیٹا اور بیٹی ہے، ہمیں صرف لڑکی کو نہیں بلکہ لڑکے کو بھی بچانا ہے، ایسا نہیں کہ میں عورت کے ساتھ نہیں مگر میرے بھائی یا کسی مرد کے ساتھ زیادتی ہوگی تو میں وہاں بھی کھڑی ہوں گی۔
نازش جہانگیر نے کہا کہ میں دونوں فریقین کے مؤقف کو جاننے کے بعد صرف سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دیتی ہوں کیونکہ مجھے ناانصافی پر مبنی فیمینزم پر یقین نہیں ہے اور سمجھتی ہوں کہ سڑک پر عورت مارچ کرنا بھی فیمینزم نہیں ہے اور نہ اس سے خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں کوئی فرق پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ جن خواتین کے مسائل ہیں اُن تک تو یہ باتیں پہنچ بھی نہیں پاتیں، وہ آج بھی کسی گاؤں میں بیٹھی کھانا بنا رہی ہوں گی، جو عورت مارچ نکالتی ہیں انہیں اور مجھے اپنے حقوق کے بارے میں سب علم ہے۔
نازش جہانگیر نے کہا کہ اس (عورت مارچ) والے رویے یا رجحان کے بعد سے خلع اور طلاق کی شرح بہت زیادہ حد تک بڑھ گئی ہے، ممکن ہے کہ میں غلط کہہ رہی ہوں مگر یہ میرا مشاہد ہے۔