یہ یوکرین پر حملے کے بعد سابق سوویت یونین سے باہر تیسرا ملک ہے جس کا پیوٹن نے دورہ کیا ہے جہاں وہ اس سے قبل ایران اور چین کا دورہ کر چکے ہیں اور یہ دورہ وہ ایسے موقع پر کررہے ہیں جب روس مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
کریملن کی جانب سے جاری فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ دارالحکومت ریاض پہنچنے پر صدر پیوٹن کا متعدد سعودی حکام نے والہانہ استقبال کیا۔
سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ وہ بین الاقوامی سیاست، اسرائیل-حماس جنگ اور تیل کی منڈیوں پر بات چیت کے لیے ملک کے حقیقی حکمران اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے۔
سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی کے مطابق ولی عہد نے روسی صدر سے ریاض کے الیمامہ محل میں ملاقات کی۔
روس نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں امن اور سلامتی کے لیے سعودی عرب کے ساتھ چیت کی بہت اہمیت پر زور دیا۔
بیان میں کہا گیا کہ صدر پیوٹن اور محمد بن سلمان غزہ کی جنگ میں تشدد کی کمی کے طریقوں پر غور کریں گے۔
پیوٹن یوکرین پر حملے کے بعد رواں سال مارچ سے بین الاقوامی فوجداری عدالت کو جنگی جرائم کے لیے مطلوب ہیں۔
انہوں نے سیاسی محاذ آرائی سے بچنے کے لیے جنوبی افریقہ میں اگست میں ہونے والی برکس سربراہی کانفرنس میں شرکت نہیں کی اور ستمبر میں بھارت میں ہونے والی جی20 سربراہی کانفرنس میں بھی نہیں گئے تھے۔
لیکن چونکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب دونوں نے عالمی فوجداری عدالت کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے اس لیے وہ پیوٹن کو گرفتار کرنے کے پابند نہیں ہیں۔
اس سے قبل روسی رہنما کا متحدہ عرب امارات میں مکمل گھڑسوار دستے اور موٹرسائیکل کے ساتھ استقبال کیا گیا جہاں انہوں نے صدر شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی۔
پیوٹن نے صدارتی محل میں اپنے ہم منصب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ کی مہمان نوازی کی بدولت ہمارے تعلقات غیر معمولی سطح پر پہنچ گئے ہیں، متحدہ عرب امارات عرب دنیا میں روس کا اہم تجارتی پارٹنر ہے۔
کریملن کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت گزشتہ سال ریکارڈ 9 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور پوتن نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تیل اور گیس کے شعبوں میں تعاون کے متعدد منصوبے چل رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات فی الحال اقوام متحدہ کے کوپ28 موسمیاتی مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے لیکن کریملن نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا پیوٹن اس سلسلے میں کسی تقریب میں شرکت کریں گے یا نہیں۔
پیوٹن اگلے جمعرات کو ماسکو میں بات چیت کے لیے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی میزبانی کرنے والے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں نے مغربی پابندیوں کے باوجود اقتصادی اور عسکری تعلقات کو مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
تیل کی آمدن میں اضافے اور اس کی فوج کی جانب سے حالیہ مہینوں میں یوکرین کے جوابی حملے روکنے کی بدولت ماسکو مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں سے خود کو نکالنے میں کامیاب رہا ہے اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ شاید پیوٹن کے لیے اب حالات سازگار ہوتے جا رہے ہیں۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سینئر فیلو نائجل گولڈ ڈیوس نے کہا کہ پیوٹن یقینی طور پر جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بات پراعتماد انداز میں گفتگو کررہے ہیں۔