بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ اور بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوششن یادیو کو 3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا جن پر جاسوسی اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات تھے۔
عالمی عدالت نے بھارت کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کی سماعت دونوں ممالک کے وکلا کے دلائل ختم ہونے کے بعد 22 فروری 2019 کو مکمل کی تھی۔
آئی سی جے سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کلبھوشن یادیو کیس کی عوامی سماعت مکمل ہوگئی ہے، جس کے بعد اب عدالت میں مشاورت ہوگی۔
پیس پیلیس میں 18 فروری کو شروع ہونے والی آخری سماعت کے دوران پاکستانی وفد کی قیادت اٹارنی جنرل انور منصور نے بطور ایجنٹ کی تھی جبکہ بھارتی وفد کی قیادت وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری دیپک میتَل کر رہے تھے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ عدالت کیس کا فیصلہ عوامی سطح پر سنائے گی تاہم فیصلے کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ عالمی عدالت میں پاکستان کی جانب سے بیرسٹر خاور قریشی کیس کی پیروی کررہے تھے۔
یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔
بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ‘را’ کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا۔
ویڈیو میں کلبھوشن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔
بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے۔
عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیاتھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔
بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔
خیال رہے کہ 13 دسمبر 2017 کو کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت کی شکایت پر پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں جوابی یاد داشت جمع کرائی گئی تھی۔
جس کے بعد گزشتہ برس 18 مئی کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے کیے گئے دعووں پر اب تک پاکستان اور بھارت کی جانب سے 2،2 جوابات داخل کروائے جاچکے ہیں۔