ایران کا یورینیم افزودگی کی حد سے تجاوز کرنے کا اعلان
ایرانی اٹامک ایجنسی کے ترجمان بہروز کمال وندی نے کہا کہ نئی سطح پر یورنیم افزودہ کرنے سے متعلق تکنیکی تیاریاں چند گھنٹوں میں مکمل ہوجائے گیں اور 3.67 فیصد سے زیادہ یورینیم افزودہ کی جائے گی۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ اور کل علی الصبح جب انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نمونہ حاصل کرے گی تو ہم 3.67 فیصد سے آگے بڑھ چکے ہوں گے‘۔
بہروز کمال وندی نے کہا کہ ’ ہم یورینیم کسی بھی سطح اور مقدار میں افزودہ کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس اراغچی نے کہا کہ تہران ہر 60 دن بعد معاہدے پر عملدرآمد میں کمی کو جاری رکھے گا جب تک تمام فریقین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں سے بچانے کی کوشش نہیں کرتے۔
عباس اراغچی نے کہا کہ یورپی ممالک اپنے وعدوں پر پورا اترنے میں ناکام ہوگئے اور وہ بھی ذمہ دار ہیں، سفارتی تعلقات کے دروازے کھلے ہیں لیکن اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں معاہدے کو بچانے کی سیاسی خواہش ہے، انہوں نے کہا کہ امریکی پابندیوں کے متبادل حل کے لیے تجارتی طریقہ موجود ہے لیکن وہ اس وقت تک کارآمد نہیں جب تک یورپی ممالک اسے ایرانی تیل کی خریداری میں استعمال نہیں کرتے۔
عباس اراغچی نے مزید کہا کہ یہ مذاکرات کا موقع ہے اور اگر ہمارے شراکت دار اس موقع کو استعمال کرنے میں ناکام ہوگئے تو انہیں معاہدے سے دستبرداری کے عزم میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ ’ ایران اپنے تمام اقدام کو واپس لے سکتا ہے اگر یورپی ممالک اپنے وعدوں پر پورا اتریں۔
انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے 3 فریقین کے پاس ٹھوس سیاسی موقف سے گریز، معاہدے کو بچانے اور امریکی یک طرفہ نظام کو روکنے کے لیے کوئی عذر موجود نہیں ہے۔
خیال رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی تھی چنانچہ اب لگ رہا ہے کہ یورپی ممالک کی جانب سے امریکی پابندی کے باجود عالمی منڈی میں تیل فروخت کرنے کے طریقہ کار کی پیش کش نہیں کی جائے گی۔
جوہری معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی کے لیے 3.67 فیصد پر رضامندی کا اظہار کیا تھا جو جوہری توانائی پلانٹ کے لیے کافی ہے لیکن ہتھیاروں کے لیے درکار 90 فیصد سے بہت کم ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے چند روز قبل خبردار کیا تھا کہ تہران یورنیم کو افزودگی اس حد تک بڑھا دے گا جتنی ’مقدار ہم چاہیں‘ گے۔