ایران کی خبر ایجنسی ارنا کے مطابق اٹامک ایجنسی کے ترجمان بہروز کمال وندی نے کہا کہ ’ اگر یورپ اور امریکا اپنے فرائض نہیں ادا کرنا چاہتے تو ہم معاہدے کے نکات پر عملدرآمد میں کمی کردیں گے اور صورتحال کو 4 سال کی سطح پر واپس لے جائیں گے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدامات ضد کرنے کے لیے نہیں، یہ سفارتی تعلقات کو ایک موقع دینے کے لیے ہیں تاکہ دوسرے فریق اپنے حواسوں میں آئیں اور فرائض سر انجام دیں۔
خیال رہے کہ یورپی وزرائے خارجہ برسلز میں 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے پر مذاکرات کے لیے موجود ہیں۔
گزشتہ روز فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایرانی جوہری پروگرام پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔
یورپین ممالک کے تین اہم ممالک نے اعلامیے میں کہا تھا کہ ’تہران اب بھی جوہری معاہدہ 2015 کی پاسداری کو یقینی بنا سکتا ہے‘۔
تینوں یورپی ممالک نے مشترکہ اعلامیے میں واضح کیا تھا کہ امریکا کی جانب سے لگاتار پابندیوں کے نتیجے میں جوہری معاہدے سے جڑے نکات کو خطرات لاحق ہیں اور اسی بات پر شدید تحفظات ہیں۔
گزشتہ روز ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکا سے مذاکرات بحالی کی مشروط آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا پابندیاں ہٹائے اور 2015 کا جوہری معاہدہ بحال کرے تو بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یاد رہے کہ امریکا نے گزشتہ سال ایران کے 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اس پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
امریکا نے ایران کے خلاف پابندیوں کو مزید سخت کرتے ہوئے تیل کی برآمدات مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے گزشتہ دو ماہ کے دوران تہران پر پابندیوں میں مزید اضافہ کر دیا تھا جس کے بعد ایران شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔
ایران اور امریکا کے درمیان خلیج میں جاری کشیدگی کے نتیجے میں تیل بردار جہازوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور اس حوالے سے خلیج فارس میں بھی یورپی ممالک اور ایران کے درمیان حالات خراب ہیں۔
فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے بھی تازہ بیان میں مشترکہ طور پر ایران اور امریکا سے کشیدگی کم کرنے لیے مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔
ایران نے تجارتی استثنیٰ نہ ملنے پر معاہدے کے فریقین ممالک کو 2 ماہ کی مہلت دی تھی کہ اگر وہ جوہری معاہدے سے متعلق تنازع حل کرنے میں ناکام ہوئے تو یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کردے گا۔
حسن روحانی نے معاہدے میں شامل دیگر ممالک کو خبردار کیا تھا کہ تہران یورنیم افزودگی کی حد کو بڑھا دے گا اور کہا تھا جتنی ’مقدار میں ہم چاہیں‘ گے۔