وزیر اعظم کون ہوگا؟ (ن) لیگ اور پی پی میں بات چیت کا عمل جاری
مرکز میں شراکت اقتدار کا فارمولا تیار
ذرائع کے مطابق مرکز میں حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کا فارمولا تیار کر لیا گیا ہے، دونوں جماعتوں نے دو نکاتی فارمولے پر اتفاق کر لیا ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ پہلے مرحلے میں زیادہ نشستوں والی پارٹی کا وزیراعظم 3 سال رہے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں 2 سال کے لیے دوسری جماعت کا وزیراعظم ہو گا جبکہ پیپلز پارٹی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے مریم نواز کی حمایت کی یقین دہانی کرائے گی۔
لیگی ترجمان کی تردید
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان نے پیپلز پارٹی کے ساتھ پاور شیئرنگ کے معاملے پر بات چیت کی خبروں کی تردید کردی۔
ایک بیان میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ ابھی تک وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے نام کا پارٹی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، اس حوالے سے اتحادی پارٹیوں سے مشاورت جاری ہے۔
لیگی ترجمان کا کہنا تھاکہ پاور شیئرنگ سے متعلق کوئی گفتگو نہیں ہوئی اور پاور شیئرنگ گفتگو کا حصہ نہیں ہے البتہ ساتھ چلنے پر مشاورت ہوئی ہے، جو بھی فیصلہ کریں گے مشاورت سے کریں گے اور اعلان کریں گے۔
حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑ
عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑ جاری ہے جس میں آزاد امیدواروں کو گیم چینجر کی حیثیت حاصل ہے۔
حکومت سازی کیلئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں رابطے ہورہے ہیں جب کہ ایم کیو ایم کا وفد بھی (ن) لیگ کے قائدین سے لاہور میں ملاقات کرچکا ہے۔
آدھی آدھی مدت کیلئے وزارت عظمیٰ کا فارمولا
ذرائع کے مطابق (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات میں لیگی وفد نے مؤقف اپنایا کہ وزیراعظم مسلم لیگ ن کا ہوگا جبکہ آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی بلاول بھٹو کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کر چکی ہے۔
پارٹی چاہتی ہے بلاول وزیراعظم ہوں: فیصل کنڈی
جیو نیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے پی پی رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ بلاول بھٹو وزیراعظم کے امیدوار ہوں، کیونکہ کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ ہمارے بغیر حکومت بنائے، (ن) لیگ کی جہاں تک بات ہے تو عددی برتری تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کوبھی حاصل ہے لیکن کوئی بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ مکمل خبر پڑھیں۔۔
کمزور اتحادی سے زیادہ بہتر طاقتور اپوزیشن، بلاول کو اپوزیشن لیڈر بننے کا مشورہ
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو ان کے مشیروں کی حیثیت رکھنے والے پارٹی کے ایک سے زیادہ رفقا نے یہ تجویز کیا ہے کہ ایک ’کمزور اتحادی‘سے زیادہ بہتر ’طاقتور اپوزیشن‘ کی ہے۔
اس لیے خدشات اور تحفظات کے ساتھ حکومت کا حصہ بننے کے بجائے ہمارا اپوزیشن میں بیٹھنا بہتر ہوگا، پیپلزپارٹی کی ’سی ای سی‘ کا اہم اجلاس آج اسلام آباد میں ہو گا، زرداری اور بلاول مشترکہ صدارت کرینگے۔
اس تجویز کے بڑے حامی قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی جب کہ اس تجویز کی حمایت میں پارٹی کے بعض ارکان نے ’ایکس‘پر پوسٹیں بھی کی ہیں۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک(فافن) کی رپورٹ کے مطابق ملک میں کل 12 کروڑ 66 لاکھ 50 ہزار 183ووٹ رجسٹرڈ تھے جن میں سے قومی اسمبلی کی 263 نشستوں پر 6 کروڑ 5 لاکھ 8 ہزار 212 ووٹ کاسٹ ہوئے اور ووٹنگ کا تناسب 47.8 فیصد رہا۔