صدر مملکت نے اعتراض کیا کہ سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 اسلام آباد کی حدود میں نافذ العمل ہے، نئی ترامیم کا اطلاق محض اسلام آباد میں ہونے کے حوالے سے کوئی شق بل میں شامل نہیں۔ مدارس کو بحیثیت سوسائٹی رجسٹر کرانے سے ان کا تعلیم کے علاوہ استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
بل پر اعتراض کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ نئے بل کی مختلف شقوں میں مدرسے کی تعریف میں تضاد موجود ہے اور سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے ابتدائیہ میں مدرسے کا ذکر موجود نہیں ہے اس لیے نئے بل میں مدرسے کی تعلیم کی شمولیت سے 1860 کے ایکٹ کے ابتدائیہ کے ساتھ تضاد پیدا ہوگا۔
صدر مملکت نے کہا کہ اس قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہوگا اور ایک ہی سوسائٹی میں بہت سے مدرسوں کی تعمیر سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہوگا۔
سوسائٹی میں مدرسوں کی رجسٹریشن سے مفادات کا ٹکراؤ ہوگا اور ایسے مفادات کے ٹکراؤ سے عالمی تنقید کا سامنا کرنا بھی پڑے گا جبکہ بل کی منظوری سے ایف اے ٹی ایف اور دیگر عالمی ادارے پاکستان کے بارے میں اپنی آراء اور ریٹنگز میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اسپیکر قومی اسمبلی سے چیمبر میں ملاقات بھی کی۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے بل پر صدر کے اعتراضات کی تفصیل جے یو آئی کو فراہم کر دی۔