پاکستانی خبریں

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں اضافی نوٹ جاری کردیا

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں اضافی نوٹ جاری کردیا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ کیس میں ٹرائل کورٹ اور اپیلٹ عدالت کی جانب سے فئیر ٹرائل تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے مقدمے میں…

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کے فیصلے سے جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم اور جسٹس جی صفدر شاہ کے جرات مندانہ اختلافات کو تسلیم کرنے کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے جو مشکل حالات کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہے۔

یاد رہے کہ 6 مارچ کو سپریم کورٹ نے 44 سال کی تاخیر کے بعد یہ تسلیم کرتے ہوئے ایک تاریخی غلطی کو درست کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا مقدمہ غیر منصفانہ تھا اور ٹرائل کورٹ اور اپیلٹ عدالت کی جانب سے فئیر ٹرائل تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے غیر معمولی سیاسی ماحول اور دباؤ نے انصاف کے عمل کو متاثر کیا جو عدالتی آزادی کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

انہوں نے کہا کہ تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ ریفرنس عدلیہ کی بحالی اور عوامی اہمیت کے معاملات کو حل کرنے میں عدلیہ کے فعال کردار کے پس منظر میں دائر کیا گیا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے وضاحت کی کہ صدارتی ریفرنس میں سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ (مرحوم) کے بھٹو کی اپیل کے فیصلے میں بیرونی دباؤ کے حوالے سے ”اعتراف“ کو اجاگر کیا گیا اور اسے عدالتی تاریخ کا افسوس ناک باب قرار دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو اور سوانح حیات میں سامنے آنے والے واقعات اور حقائق نہ ہوتے تو شاید ریفرنس کبھی عدالت کے سامنے نہ آتا۔

اپنے اضافی نوٹ میں انہوں نے کہا کہ مجھے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت دیگر ججز کے نوٹس پڑھنے کا اتفاق ہوا میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ سے ایک حد تک اتفاق کرتا ہوں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ریفرنس میں دی گئی رائے میں کیس کے میرٹس پر کسی حد تک بات کی گئی ہے، 186 سپریم کورٹ صرف ایڈوائزری دائرہ اختیار رکھتی ہے، تاہم فیئر ٹرائل کے سوال پر فیصلے کے پیراگراف سے اتفاق کرتا ہوں۔

کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔

تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔

‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

Related Articles

Back to top button