لاہور ہائیکورٹ کی وزرات داخلہ سے ’ایکس‘ کے استعمال سے متعلق رپورٹ طلب

لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں 3 رکنی فل بینچ نے صحافی شاکر محمود اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواستوں میں وفاقی حکومت، وزارت قانون، وزارت اطلاعات سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے آگاہ کیا کہ وزرات داخلہ کی ہدایات کی روشنی میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ’ایکس‘ پر پابندی لگائی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزرات داخلہ نے ’ایکس‘ کی موجودہ صورتحال کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ اگر ’ایکس‘ بلاک ہونے کے باوجود استعمال ہورہا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے، جس پر چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی اے سے استفسار کیا کہ رپورٹ دی جائے کہ ’ایکس‘ پابندی کے باوجود کیوں استعمال ہو رہا ہے۔
پی ٹی اے کے وکیل نے کہا وی پی این کے ذریعے ’ایکس‘ استعمال ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ پابندی کے باوجود کون سے حکومتی ادارے ’ایکس‘ استعمال کر رہے ہیں، بتایا جائے کہ ایکس کی حیثیت قانونی ہے یا غیر قانونی۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ سارے فریقین عدالت میں جواب داخل کرانے کے پابند ہیں۔ صحافی شاکر محمود اعوان کے وکیل نے استدعا کی کہ کیس کو سنگل بینچ کو بھجوا دیں، سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف دادرسی کے لیے دو رکنی بنچ کے پاس جایا جا سکتا ہے۔
فل بینچ نے درخواست پر سماعت 20 مارچ تک ملتوی کردی۔ عدالت نے وفاقی وزرات داخلہ سے ’ایکس‘ کے استعمال سے متعلق رپورٹ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی ورکنگ طلب کر لی، جبکہ پی ٹی اے کے ذمہ دار افسر کو بھی ریکارڈ سمیت طلب کر لیا گیا۔