وہ بدھ کو ایم کیو ایم پاکستان کے زیر اہتمام سالانہ امدادی پروگرام کی تقریب سے خطاب کررہے تھے، تقریب میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے بھی شرکت کی۔
خالد مقبول نے کہا میں یہاں پر اپنی اس روایات کو نبھانے کیلیے کھڑا ہوں جو میری سیاسی تحریک سے پہلے سے جاری تھی، خدمت خلق فاؤنڈیشن کو شاید 45 سال ہو گئے ہیں۔ کے کے ایف کی ضرورت پورا کرنے کے لیے ایم کیو ایم بنائی گئی تھی۔
انہوں نے کہاکہ حیدرآباد میں چند دن قبل پروگرام ہوا تھا طلبہ تحریک فکری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے شروع کی، حالات روپوشی میں رکاوٹوں کو پھلانگ کر لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کیا، 1947 میں پورا گھر بنایا تھا سب کو چھت میسر ہو آزادی حاصل ہو ہم نعرے لیکر آ گئے تھے آزادی کہاں بچھڑی ہمیں نہیں پتہ 1994 میں ہم روپوش تھے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پشاور میں وہاں بھی ایمبولینس اور کلینک تحفے میں دیا، یہ شہر پورے ملک کا دا لحکومت ہے ، پورے صوبے کوبھی پال رہا ہے پورے پاکستان میں اس شہر کی امداد جا رہی ہے، پاکستان کے اس امیر صوبے میں سب سے غریب لوگ رہتے ہیں اس شہر کے ارد گرد غربت آباد ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان امانت تھی ذمہ داری تھی پوری کر رہے ہیںہماری پانچ سالوں سے ایمبولینس یہاں موجود ہیں، ہم تبدیلی کی سب سے بڑی امانت ہیں، تاریخ کیا بتاتی ہے یہ تو وقت بتائے گا امداد کے لیے حکومتوں کی نہیں امن کی ضرورت ہوتی ہے خوف کے سائے آہستہ آہستہ ختم ہونگے۔
چیئرمین ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ 22 اگست کو جو کچھ ہوا لوگ سمجھے ایم کیو ایم ختم ہو جائے گی ایم کیو ایم بکھری نہیں نکھر رہی ہے، خاموشی کے ساتھ یہ امداد لوگوں کے گھروں تک پہنچے گی، ابھی کم امداد ہے آئندہ آنے والے دنوں میں نظام ہمارے بغیر نہیں چل پائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ امداد سب کے لیے ہے کسی زبان اور فرقے کے لیے نہیں، حکومت ہمارے حوالے سے دباؤ کا شکار ہے اس شہر کی داستان سنانے کے لیے پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت نہیں اس شہر کی سڑکیں داستانیں بیان کرتی ہیں۔