سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی سے متعلق درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ فوزیہ صدیقی بھی عدالت میں موجود تھیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ عافیہ زندہ ہیں یا نہیں، جس مقصد کے لیے وزارت خارجہ کو نوٹس جاری کیا تھا، اب معلوم ہوگیا کہ عافیہ صدیقی زندہ ہیں لہٰذا اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ عافیہ صدیقی کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو امریکی سپریم کورٹ سے رجوع کریں، ہم امریکی حکومت کو کیسےحکم دے سکتے ہیں؟
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملے میں حکومت پاکستان اور عدالتیں کچھ نہیں کرسکتیں لہٰذا ہم سے وہ کروائیں جو ہمارا اختیار ہے۔
اس دوران عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے عدالت سے کہا کہ آپ عافیہ صدیقی کو واپس پاکستان لاسکتے ہیں، جس کے جواب میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہم کسی خود مختار ملک کو حکم نہیں دے سکتے کیوں کہ ہم یہاں سے کوئی ہدایات جاری کریں اور حکومت اسے رد کردے تو پاکستان کی تضحیک ہو گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں واشنگٹن سے جاری ایک بیان میں ترجمان محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے بدسلوکی کے الزامات سے متعلق پاکستان کا سرکاری پیغام ملا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ سزا یافتہ مجرموں کے ساتھ امریکا میں عالمی انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے اور تمام قیدیوں سے امریکی آئین اور قانون کے مطابق برتاؤ کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ 7 جون کو سپریم کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ سے متعلق پاکستانی سفارتخانے سے 3 روز میں رپورٹ طلب کی تھی