پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام کو اپنے جمہوری، انسانی اور معاشی حقوق کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔
انہوں نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کو جمہوریت کی واپسی کا سفر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہم جمہوریت سے واپسی کی جانب جارہے ہیں، آج میڈیا اور عوام کو اتنی آزادی نہیں جو انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں حاصل تھی۔’
بلاول بھٹو نے حکومت پر اپوزیشن جیسا رویہ اختیار کرنے پر تنقید بھی کی، انہوں نے کہا کہ ’اگر حکومت اور اپوزیشن دونوں اپوزیشن جیسا رویہ اختیار کریں گی تو حکومت کون کرے گا‘۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک سویلین حکومت نے دوسری حکومت کو اقتدار سونپا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آج ملک میں کمزور ہی سہی لیکن پارلیمانی نظام تاحال موجود ہے، یہ جمہوریت کی کامیابی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ اداروں کے بجائے انفرادیت پر توجہ مرکوز کی گئی اور الیکشن مہم میں انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اگر آزاد اور شفاف الیکشن نہیں ہوئے تو عوام جمہوری نظام سے ناامید ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے 1973 کے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کے لیے 30 سال جدوجہد کی اور پیپلز پارٹی 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان کا وژن پورا کرنے میں کامیاب ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ حکومت اٹھارویں ترمیم پر حملے کر رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی ترمیم پر آنچ نہیں آنے دے گی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ چاہے پورے خاندان کو جیل بھیج دیں لیکن ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت تمام مسائل کا حل ہے، جبکہ ملک کو ایک آزاد سیاسی فضا کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سلیکٹڈ وزیر اعظم میں ملک چلانے کی صلاحیت نہیں، وہ رول ماڈل نہیں بن سکتے۔