جج ارشد ملک نے ویڈیو اسکینڈل پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کو خط اور بیان حلفی لکھ کر مریم نواز کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے رجسٹرار کو حکم دیا کہ جج ارشد ملک کے خط اور بیان حلفی کو نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ جسٹس عامر فاروق کے حکم پر فوری عمل درآمد کرتے ہوئے رجسٹر نے خط اور بیان حلفی کو ریکارڈ کا حصہ بنادیا۔
جج ارشد ملک کے چار صفحات پر مشتمل خط میں کہا گیا ہے کہ مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے نوازشریف کا کیس آنے سے پہلے مجھ سے رابطہ کرکے کہا کہ ہم نے آپ کو یہاں لگوایا ہے، کیس جیسے ہی میرے پاس آیا تو دھمکیاں اور لالچ دینا شروع کردیا، سماعتوں کے دوران ناصر جنجوعہ نے ملاقات کرکے کہا جتنے پیسے چاہئیں لیں، فیصلے حق میں دینے پر میاں صاحب منہ مانگی قیمت دیں گے، لیکن میں نے کسی لالچ اور دھمکی کے بغیر فیصلہ دے دیا۔
جج ارشد ملک نے کہا کہ نواز شریف کے کیس کے فیصلے کے بعد کچھ عرصے تک خاموشی رہی، پھر کچھ ماہ بعد ایک شخص نے مجھے ویڈیو دکھائی جو ٹیمپرڈ (ردو بدل شدہ) تھی اور غیر اخلاقی حرکات پر مبنی تھی، اپریل میں ناصر بٹ نے مجھے ملتان والی غیراخلاقی ویڈیو دھمکی کے طور پر دکھائی، اس جعلی ویڈیو میں مجھے کہا گیا کہ یہ تم ہو، مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن میں نہ مانا۔
جج ارشد ملک نے کہا کہ ناصر بٹ نے مجھے دھمکی دی کہ آپ کو میاں صاحب سے ملاقات کرنا ہوگی، میں ناصر بٹ کے ساتھ جاتی عمرہ گیا، مجھے سے ملتے ہوئے میاں صاحب کا موڈ کافی خراب تھا، میں نے وضاحت کرنے کی کوشش کی لیکن میاں صاحب نے خوش آئند ردعمل نہ دیا، ناصر بٹ نے دھمکیاں دے کر کہا کہ فیصلے میں قانونی سقم بتادیں، میں نے ناصر بٹ کے مطالبے کو قبول کرلیا۔
جج ارشد ملک نے کہا کہ مئی میں عمرے پر سعودی عرب گیا جہاں مجھ سے حسین نواز کی فون پر بات ہوئی، انہوں نے مجھے بے پناہ پیسہ دینے کی آفر کی، اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں میری اور اہل خانہ کی رہائش کی بھی پیشکش کی گئی، (ن) لیگ کا کہنا تھا کہ میں استعفی دے کر کہوں کہ فیصلہ دباؤ میں دیا، حلفیہ کہتا ہوں کہ فیصلہ حق اور انصاف کی بنیاد پر دیا اور میرے خلاف پریس کانفرنس میں سب جھوٹ دکھایا گیا۔