سپریم کورٹ میں کتنے مقدمات زیرِ التواء ہیں؟ وائس چیئرمین پاکستان بار نے بتادیا
عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید نے کہا کہ زیرِ التواء مقدمات کی سماعت کے لیے کوئی شفاف نظام وضع نہیں کیا جا سکا، کچھ عرصے سے سپریم کورٹ میں مقدمات کا مختصر فیصلہ کرنے کی ایک نئی روش چل پڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اکثر مقدمات میں بر وقت تفصیلی فیصلے جاری نہیں ہوتے، یہاں تک کہ کچھ ججز ریٹائر بھی ہو جاتے ہیں، کچھ کیسز میں لارجر بینچ بننے کا حکم ہوا لیکن آج تک وہ لارجر بینچ تشکیل نہیں دیے جا سکے، نامزد چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ نئے اور ارجنٹ کیسز جب فائل ہوں تو اسی ہفتے فکس کیے جائیں۔
ہارون الرشید نے کہا کہ کافی تعداد میں ایسے کیسز صرف پہلی سماعت کے منتظر ہیں، عام تاثر ہے کہ چند خاص لوگوں کے مقدمات دائر ہوتے ہیں تو فوراً لگ جاتے ہیں، عام مقدمات کافی دیر کے بعد فکس ہوتے ہیں جس سے عوام مایوس ہوتے ہیں، نامزد چیف جسٹس اس تاثر کو زائل کریں۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں سیاسی استحکام آئے گا تو عدلیہ سمیت ہر ادارہ مستحکم ہو گا: چیف جسٹس
ان کا مزید کہنا ہے کہ ایسا سسٹم تشکیل دیں کہ مقدمات کا تقرر بلا تفریق ہو، عام لوگوں کو محرومی کا احساس نہ ہو اور ادارے پر اعتماد قائم رہے، بہت سے مقدمات کا فیصلہ ہو جانے کے باوجود ان کے تحریری حکم نامے نہیں آ سکے، اگر یہ اطلاع درست ہے تو میرے اس ریفرنس کو درخواست تصور کیا جائے۔