ٹیسٹ کپتان شان مسعود کا بابر اعظم کے متعلق بڑا بیان
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شان مسعود کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے خلاف سیریز ہمارے لیے چیلنج ہے، ایسا نہیں ہے کہ ایک نئی ٹیم بنی ہے اور ہم ایک نئی شروعات کر رہے ہیں، کوشش یہی ہوتی ہے کہ جو چیز طے شدہ ہے اس کو ایسے ہی لے کر چلیں، چاہے وہ ڈومیسٹک کرکٹ ہو یا بین الاقوامی کرکٹ ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے نمبر 3 پر کرکٹ کھیلی اور میری کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی ڈومیسٹک کرکٹ کھیلوں، تیسرے نمبر پر ہی کھیلوں تاکہ مجھے اس پوزیشن کی عادت ہوجائے۔
صائم ایوب کے حوالے سے شان مسعود نے بتایا کہ صائم ایوب نے پوری ڈومیسٹک کرکٹ کو کھیلنے کے آئیڈیل طریقے کے حوالے سے ایک میسیج دیا تو ہم چاہیں گے کہ جو بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں بیٹنگ کر رہے ہیں، ان کی بلے بازی کا طرز عمل اس طرح کا ہونا چاہیے، صائم ایوب کو ایک طریقے سے اس محنت کا پھل ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹرز کو پیغام ہے کہ جب ٹیم کو ضرورت ہوگی، جگہ بنے گی، آپ ٹاپ کریں گے تو اس کا پھل آپ کو ضرور ملے گا، یہی انعام میر حمزہ کو بھی ملا ہے۔
قومی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش تھی کہ حارث رؤف کو شامل کریں، ان کے پاس پیس ہے، جن کے پاس رفتار ہوتی ہے وہ آسٹریلیا میں کافی کامیاب ہوتے ہیں، تاہم اگر وہ موجود نہیں ہیں تو ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اور ہماری یہ کوشش ہوگی کہ جو فاسٹ باؤلرز ہم لے کر جارہے ہیں، ان کو استعمال کر سکیں۔
شان مسعود نے کہا کہ لیکن جہاں ہمیں ضرورت ہوگی اور جس طرح ہمارا کرکٹ کھیلنے کا ارادہ ہوگا تو جو کھلاڑی اس حساب سے ہوں گے ان کو ہم ضرور ساتھ لے کر چلیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ جب ٹیم سیٹلڈ ہوتی ہے تو آپ ضرورت کے حساب سے چلتے ہیں یا جب خدانخواستہ کوئی انجری ہوتی ہے تو پھر ہی آپ اس کو دیکھتے ہیں، اگر ہمیں کوئی اضافی بیٹسمین کو کھلانا پڑا جو ہو سکتا ہے کہ آسٹریلیا میں ایسی صورتحال ہمیں ملے کہ اسپنر کو چھوڑ کر ایک اضافی بیٹسمین کو کھلانا پڑے تو ہم پھر غور کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ میچ میں 20 کھلاڑی آؤٹ کرنے ہوتے ہیں، آپ کو کہیں نہ کہیں اسپنرز بھی چاہئیں، تو 20 کھلاڑی آؤٹ کرنے کے لیے 5 باؤلرز بھی درکار ہیں، اس لیے جو 18 کا اسکواڈ ہم نے بنایا اس میں ہمارا دھیان اس پر تھا کہ کس طریقے سے ہم 20 کھلاڑی آؤٹ کرسکتے ہیں اور رنز بنا سکتے ہیں۔
شان مسعود نے بتایا کہ آسٹریلیا جاکر صورتحال زیادہ واضح ہوگی، یہاں بیٹھ کر کچھ بھی کہنا آسان نہیں ہے، کیونکہ آخری بار ہم 4 سال پہلے آسٹریلیا گئے تھے، 4 سال میں بہت کچھ بدل گیا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک تنقید کی بات ہے تو تنقید تو ہوگی، تعمیری تنقید بھی ہوگی، ہم ہر مثبت تنقید کا خیر مقدم کریں گے لیکن ٹیم کے تحت ہمارا ایک مقصد ہے، ایک ہدف ہے، ہم اس پر ہی رہیں گے اور جو بھی نتائج ہوں گے اس کی ذمہ داری ہم لیں گے اور کوشش کریں گے کہ جو چیزیں اچھی نہیں ہو رہیں ان کو بہتر کریں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہم نے کوشش کی کہ جو آسٹریلیا کی کنڈیشنز ہیں، ویسی ہی پاکستان میں بنائیں، ہم نے وکٹس پر تھوڑی گھاس چھوڑی اور پنڈی ہی وہ سینٹر ہے جہاں آپ کو تھوڑی رفتار اور باؤنس مل سکتا ہے، لیکن ہم اس کا موازنہ آسٹریلیا سے نہیں کرسکتے کیونکہ یہ پاکستان کے حساب سے بنی ہوئی ہے۔
کپتان قومی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کا کہنا تھا کہ ہم نے آسٹریلیا میں میچ بھی کھیلا، ہم نے ڈومیسٹک کرکٹ کے پرفارمنگ فاسٹ باؤلرز کو بھی بلایا، تو ہم نے اپنی طرف سے بیٹنگ یونٹ ہونے کے تحت کافی کوششیں کی کہ کسی طرح سے آسٹریلیا کے حالات کی نقل کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈراپ ان پچز کا خیال بہت اچھا ہے، مگر یہ کرکٹ کی خوبصورتی ہے کہ ہر جگہ کنڈیشنز الگ ہوتی ہیں، آپ پاکستان کو آسٹریلیا نہیں بنا سکتے، انگلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، سری لنکا سب کی کنڈیشنز الگ الگ ہیں۔
قومی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ایکسپوژر کی بات ہے تو اس میں انڈر 19 دورے آتے ہیں اور بہت ساری ٹیمیں عام طور پر آسٹریلیا اور دیگر ممالک کی اپنی اے ٹیم کے ساتھ دورہ کرتی ہیں، جونئیرز ٹیم کے ساتھ جاتی ہیں تو ہم کنڈیشنز کی نقل نہیں کرسکتے، پر یہ کرسکتے ہیں کہ اے ٹیم، شاہین ٹیم آسٹریلیا جائیں اور وہاں کھیلیں، ہم کوشش کریں کہ ہمارے کھلاڑی وہاں جاکر ڈومیسٹک کرکٹ کھیلیں اور ان کنڈیشنز کے عادی ہوں تاکہ ہم پرفارم کرسکیں۔
شان مسعود نے بطور نائب کپتان پلیئنگ 11 کا حصہ نہ بننے پر مایوسی اور ریڈ بال کرکٹ میں بطور کپتان بننے سے متعلق سوال کے جواب پر کہا کہ کوئی مایوسی نہیں ہے، سب سے پہلے پاکستان کی ٹیم آتی ہے، چاہے وہ نائب کپتان ہی کیوں نہ ہو، اگر اس کی جگہ نہیں ہے تو نہیں ہے، جو بھی سلیکشن کا فیصلہ ہوتا ہے اسے ہمیشہ عزت دی، جہاں تک کپتانی کا تعلق ہے تو پاکستان کے لیے کھیلنا بہت فخر کی بات ہے اور اس کی کپتانی تو اور بڑی بات ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے، ملک کی ساکھ آپ کے ہاتھ میں ہوتی ہے، کھلاڑیوں کے کیریئرز آپ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کرکٹ میں سینئر پلیئرز کے لیے دروازے کھلے ہیں، کوشش یہ ہے کہ اوپر سے ہم یہ دکھائیں کہ یہ طریقہ ہے کھیلنے کا، یہ ایک پہچان ہے پاکستان ٹیم کی تو جو بھی کھلاڑی اس طریقے سے ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرتا ہے وہ ضرور ٹیم میں آئے گا لیکن پہلے ہم اپنے طے شدہ یونٹ کو پورا موقع دیں گے۔