بنگلہ دیش کے کپتان کی مایوسی اور شکست کی ذمہ داری کس طرح قبول کی؟ خبر ضرور پڑھیں
ڈھاکا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم مایوس ہیں، اگر چند میچ کے نتائج ہمارے حق میں آجاتے تو ہم سیمی فائنل تک پہنچ جاتے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مجموعی طور پر ہم نے بہت اچھا کھیلا مگر ہم امیدوں پر پورا نہیں اترسکے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اگر ہم نے آخری میچ جیت لیا ہوتا تو ہم پانچویں نمبر پر آجاتے مگر میں جانتا ہوں کہ تمام مداح اور کھلاڑی چاہتے تھے کہ ہمارا شمار سیمی فائنل تک پہنچنے والی 4 ٹیموں میں ہو’۔
واضح رہے کہ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے لیگ فیز کے آخری میچ میں جنوبی افریقہ کی جانب سے آسٹریلیا کو شکست کے بعد بنگلہ دیش کی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر 8ویں نمبر پر رہی۔
ٹورنامنٹ میں بنگلہ دیش نے جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز اور افغانستان کو ہرایا جبکہ چند بہترین ٹیموں کو انہوں نے میچ میں مشکل وقت دیکھنے پر مجبور کردیا تھا۔
بنگلہ دیش کی ٹیم بھارت اور پاکستان سے ہارنے کے بعد ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی تھی۔
مشرفی مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ چند کھلاڑیوں کے غیر مستقل مزاجی اور قسمت بری ہونے کی وجہ سے ٹورنامنٹ میں ہماری ٹیم کو نقصان پہنچا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بھارت کے میچ تک ہمارے پاس سیمی فائنل تک جانے کا موقع تھا تاہم شکیب الحسن اور مشفیق الرحمٰن کے علاقہ مستقل مزاجی کی کمی سامنے آئی جبکہ محمد سیف الدین نے بہترین کرکٹ کھیلی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘بارشوں کی وجہ سے ایک پورے ہفتے میچوں میں مسائل کا سامنا رہا جس کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا جبکہ چند ٹیموں کو اس کا فائدہ پہنچا’۔
بنگلہ دیشی ٹیم کے کپتان کا کہنا تھا کہ ‘بطور کپتان میں اپنی ٹیم کی قیادت مطلوبہ نتائج تک نہیں کرسکا جس پر تنقید کی جائے گی مگر میں پوری ٹیم کی ذمہ داری لیتا ہوں، یہ عام بات ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں پوری ذمہ داری لیتا ہوں جیسا مجھے کرنا چاہیے تاہم میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا بھر میں کھلاڑیوں پر تنقید کی جاتی ہے خاص طور پر ٹورنامنٹ یا سیریز کے بعد، اور ایسا ورلڈ کپ کے بعد ہونا عام ہے’۔