امریکی خلائی ادارے ناسا کے زیرتحت ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ چاند کی سطح کے نیچے چھپی تہہ ٹھنڈی ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں زمین کا قدرتی سیٹلائیٹ سکڑ رہا ہے اور وہاں زلزلے بڑھ رہے ہیں۔
درحقیقت زلزلے کی لہریں کافی اوپر تک جا رہی ہیں جس سے چاند کی سطح پر دراڑیں بن رہی ہیں۔
ان دراڑوں کے باعث چاند پر کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے زلزلوں اور لینڈ سلائیڈز سے وہاں مستقبل قریب میں پہنچنے والے افراد اور روبوٹس کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
Smithsonian Institution کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ماڈلز سے عندیہ ملتا ہے کہ چاند کے قطب جنوبی کی سطح پر زلزلوں کے جھٹکوں کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اس تحقیق میں چاند کے قطب جنوبی پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی تھی کیونکہ اس خطے کو بہت اہم قرار دیا جاتا ہے۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ چاند کے اس تاریک حصے میں برفانی پانی کے ذخائر موجود ہیں۔
اسی خطے میں ستمبر 2026 میں ناسا کا انسانوں پر مشتمل آرٹیمس 3 مشن اتارنے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ چاند کی سطح میں آنے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ Lunar Reconnaissance Orbiter کے کیمرے سے کیا گیا۔
اس کیمرے میں ہزاروں چھوٹی نئی دراڑوں کو دیکھا گیا جبکہ چاند کی سطح پر موجود ڈیوائسز کے ذریعے زلزلوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔ محققین نے بتایا کہ ان نئی دراڑوں کے پھیلنے سے ان کے متحرک ہونے کا عندیہ ملتا ہے اور نئی دراڑیں بننے کا اشارہ بھی ملتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ کسی کو انتباہ نہیں کر رہے اور نہ ہی وہاں مشن بھیجنے کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں مگر ہم مستقبل کے مشنز کو لاحق خطرات کو ضرور سامنے لانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چاند ایسا بے ضرر مقام نہیں جہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔