کوئی ممنون فرنگی کوئی ڈالر کا غلام
دھرکنیں محکوم ان کی لب پہ آزادی کا نام
ان کو کیا معلوم کس عالم میں رہتے ہیں عوام
یہ وزیران کرام
ان کو فرصت ہے بہت اونچے امیروں کے لیے
ان کے ٹیلیفون قائم ہیں سفیروں کے لیے
وقت ان کے پاس کب ہے فقیروں کے لیے
چھو نہیں سکتے انہیں ہم اونچا ہے ان کا مقام
یہ وزیران کرام
صبح چائے ہے یہاں تو شام کھانا ہے وہاں
کیوں نہ ہوں مغرور میاں چلتی ہے ان کی دکان
جب یہ چاہیں ریڈیو پہ جھاڑ سکتے ہیں بیان
ہم ہیں پیدل،کار پر یہ،کس طرح ہو ہمکلام
یہ وزیران کرام
قوم کی خاطر یہ اسمبلی میں مر جاتے بھی ہیں
قوت بازو سے اپنی بات منواتے بھی ہیں
گالیاں دیتے بھی ہیں ، اور کھاتے بھی ہیں
یہ وطن کی آبرو ہیں کیجیے ان کو سلام
یہ وزیران کرام
ان کی محبوبہ وزارت، داشتائیں کرسیاں
جان جاتی ہے تو جائے،پر نہ جائیں کرسیاں
دیکھیے یہ کب تلک یوں ہی چلائیں کرسیاں
عارضی ان کی حکومت عارضی ان کا قیام
یہ وزیران کرام
حبیب جالب