میں شاعر ہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے اَلفت ہے
میرا دِل دشمنِ نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
میرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
جواں ہوں میں جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
میری باتوں میں رنگِ پارسائی ہو نہیں سکتا
میرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھَوک کے مارے کِسانوں کو
غریبوں مفلسوں کو بے کسوں کو بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کوامارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو
تو دِل تابِ نشاطِ بزمِ عشرت لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا