شاعری

میں کب کہتی ہوں کہ گلے کا ہار ہو جاو

میں کب کہتی ہوں کہ گلے کا ہار ہو جاو

وہیں سے لوٹ جانا تم جہاں بے زار ہو جاو

ملاقاتوں میں وقفہ ہونا اس لیے ضروری ہے

کہ تم اک دن جدائی کے لیے تیار ہو جاو

بہت جلد سمجھ میں آنے لگتے ہو زمانے کو

بہت آسان ہو تھوڑے بہت دشوار ہو جاو

بلا کی دھوپ سے آئی ہوں میرا حال تو دیکھو

بس اب ایسا کرو تم سایہ دیوار ہو جاو

ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھ بھی لینا حال دل اپنا

مگر  لکھنا  تبھی  جب  لائق  اظہار   ہو   جاو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button