میں کب کہتی ہوں کہ گلے کا ہار ہو جاو
وہیں سے لوٹ جانا تم جہاں بے زار ہو جاو
ملاقاتوں میں وقفہ ہونا اس لیے ضروری ہے
کہ تم اک دن جدائی کے لیے تیار ہو جاو
بہت جلد سمجھ میں آنے لگتے ہو زمانے کو
بہت آسان ہو تھوڑے بہت دشوار ہو جاو
بلا کی دھوپ سے آئی ہوں میرا حال تو دیکھو
بس اب ایسا کرو تم سایہ دیوار ہو جاو
ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھ بھی لینا حال دل اپنا
مگر لکھنا تبھی جب لائق اظہار ہو جاو